بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ. سورہ آل عمران، آیت ۱۹۱
ترجمہ: یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کو کھڑے، بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ہیں (اور کہتے ہیں): اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ سب کچھ بیکار نہیں پیدا کیا، تو پاک و پاکیزہ ہے، پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔
موضوع:
اس آیت کا موضوع ایمان و عبادت، فکر و تدبر، اور اللہ کی تخلیق پر غور و فکر ہے۔
پس منظر:
یہ آیت آل عمران کی ایک حصہ ہے جو مسلمانوں کو دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے صحیح عقائد اور اعمال کی اہمیت پر زور دیتی ہے۔ اس آیت کا مقصد انسانوں کو اللہ کی تخلیق میں غور و فکر کرنے کی ترغیب دینا ہے تاکہ وہ اس کی عظمت کو پہچان سکیں اور اس کے سامنے عاجزی اختیار کریں۔
تفسیر:
- اللہ کا ذکر اور عبادت: آیت میں اللہ کا ذکر کرنے کی تین حالتوں کا ذکر ہے: کھڑے ہوئے، بیٹھے ہوئے، اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اللہ کا ذکر کسی خاص حالت یا وقت تک محدود نہیں ہے بلکہ ہر حالت میں کیا جانا چاہیے۔
- غور و فکر کی ترغیب: اللہ کی تخلیق، یعنی آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور و فکر کرنا ایمان کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس غور و فکر کا مقصد یہ ہے کہ انسان اللہ کی عظمت کو پہچانے اور اس کی قدرت کو سمجھ سکے۔
- دعا: آخر میں، اہل ایمان اللہ کی تخلیق پر غور کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اللہ کی تخلیق میں کوئی بے کار چیز نہیں ہے۔ اس کے بعد وہ اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ انہیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔
نتیجہ:
اس آیت سے یہ سبق ملتا ہے کہ ایک مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ کو یاد کرے، اس کی تخلیق میں غور و فکر کرے، اور یہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ اللہ نے اس کائنات کو ایک مقصد کے تحت بنایا ہے۔ یہ آیت انسان کو اللہ کی عظمت کے سامنے عاجزی اختیار کرنے اور اس کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرنے کی تلقین کرتی ہے۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر راہنما، سورہ آل عمران